Search

شازل (Shazel) ایک تعارف

یہ تحریر اردونامہ فورم کے ایک انتہائی ہمدرد اور چاہنے والے دوست محترم شازل بھائی (Shazel) کے بارے میں ہے۔ اردونامہ اور شازل بھائی کا تعلق ایک دوسرے سے اتنا ہی ہے جتنا میرا اردونامہ کے ساتھ تعلق ہے۔ جب اردونامہ کو مخلص دوستوں کی اشد ضرورت تھی ایسے وقت میں شازل بھائی ایک بہت بڑے ہمدرد کے طور پر سامنے آئے اور پھر انہوں نے اردونامہ کی تعمیر و ترقی کے لئے اتنا کچھ کیا جو شاید مجھ سے بھی ممکن نہیں تھا۔

اب شازل بھائی کہاں ہیں؟

لیکن پھر رزق حلال کمانے کی کوشش میں شازل بھائی اتنے مگن ہوئے کہ اردونامہ کو بھول ہی گئے۔ کچھ عرصہ تک میں ان کا پیچھا کرتا رہا لیکن پھر مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان کے لئے اردونامہ کے لئے مزید وقت نکالنا ممکن نہیں رہا ہے تو میں نے بھی انہیں زیادہ تنگ نہیں کیا، لیکن مجھے ایک قلق ہمیشہ رہے گا کہ چلو اردونامہ نہیں تو نہ سہی لیکن شازل بھائی تو مجھ سے بھی دور ہو گئے ہیں۔

خیر اس میں بھی ان کی مصروفیات کا ہی ہاتھ ہے کیونکہ بارہا پوچھنے کے باوجود انہوں نے کوئی ایسا اشارہ کبھی نہیں دیا کہ وہ مجھ سے کسی وجہ سےخفا ہیں اس لئے میرا بھی ان کے بارے میں گمان اچھا ہی ہے کہ اللہ کرے اس قدر مخلص دوست کبھی بھی مجھ سے خفا نہ ہو۔ شازل بھائی کی لکھی گئی ایک پوسٹ جو انہوں نے اپنے آخری دنوں میں اپنے بلاگ پر لکھی نیچے اقتباس میں لکھ رہا ہوں جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کس قدر مخلص تھے۔

اپنے ماجد بھائی المعروف چاند بابو (اردونامہ کے چیف آف آرمی اسٹاف) چاہتے ہیں کہ میں ایکبار پھر وہی رول نبھاؤں جو کبھی اردونامہ کو عروج پر پہنچانے کے لیے ادا کیا تھا۔ ان کی بار بار کی اپیلیں اس بار اکارت گئیں اور مجھ سے وہ رول ادا نہ کیا گیا وجہ اس کی یہ ہے کہ بندہ پانچ بجے شام کو گھر میں قدم رکھتا ہے تو تھکن اتارنے کےلیے کچھ دیر لیٹ جاتا ہے.

کھانا وغیرہ کھاتا ہے ایک آدھ دوست کا مفت میں کمپیوٹر ٹھیک کرتا ہے اور تقریبا سات بجے لیپ ٹاپ سنبھال کر بیٹھنے لگتا ہے کہ بچوں کے مسجد جانے کا وقت ہوجاتا ہے انہیں مسجد کس طرح جانا ہوتا ہے ایک ہی روٹین ہے کہ جب تک وہ ایک آدھ دھپ نہ کھالیں اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے ان سے فارغ ہوتے ہی بیگم کہیں نہ کہیں جانے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہوتی ہیں.

جب گھر میں رہنا ہے تو ان کا کہنا بھی ماننا پڑتاہے رات گئے واپسی ہوتی ہے تو فیس بک کے اسٹیٹس کھنگالنے میں وقت صرف ہوجاتا ہے اور پھر نیند ایسا غلبہ طاری کرتی ہے کہ سونے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔
اب ایسے میں چاند بابو کہتے ہیں کہ میں کچھ کرہی نہیں رہا اور اردونامہ سے میرا دل اچاٹ ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ تو میری ان سے بنتی ہے کہ وہ میرے ٹائم ٹیبل کو ملاحظہ کرلیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

اب مدت گزر گئی ہے نہ شازل بھائی نے کبھی رابطہ کیا اور نہ ان کا حال احوال کسی بھی جاننے والے سے معلوم پڑا۔ بہرحال اردونامہ اور میں آج بھی شازل بھائی کی کمی محسوس کرتے ہیں اور ہم دونوں کو ہی ہمیشہ ایسے مخلص دوستوں کی ضرورت رہتی ہے کاش شازل بھائی ایک بار پھر سے واپس آ جائیں اور اردونامہ کی رونق بن جائیں۔

ایک اطمینان ضرور ہے کہ وہ جہاں بھی مصروف ہیں کم ازکم ہم سے ناراض نہیں ہیں اور یہی اطمینان کبھی کبھار احساس دلاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ دوبارہ واپس اردونامہ پر آئیں گے ضرور اور شاید یہ تحریر اور تعارف انہی کے انتظار میں ہی لکھا گیا ہے۔

Shazel Ka Blog شازل کا بلاگ
اردونامہ فورم پر شازل بھائی کے بلاگ کا ایک عکس